اﷲ تعالیٰ نے انسانیت کی رہبری و رہنمائی کیلئے بعثت انبیاء کا جو سلسلہ شروع فرمایا تھا اور اس کیلئے ایک لاکھ چوبیس ہزار کم و بیش انبیاء و رسل کو مبعوث کیا گیا اور اس سلسلہ کو نبی آخر الزمان سرور دوعالمؐ حضرت محمد ؐ کو بھیجنے کے ساتھ ہمیشہ کیلئے نبوت و رسالت کے اس دروازے کو بند کرنے کے ساتھ تاابد تک کیلئے بعثت انبیاء کا سلسلہ مختتم ہوگیا۔جمیع انبیاء و رسل کی دعوت اور پیغام ایک ہی تھا اگرچہ وقت اور حالات اور قوم کے مطابق ہدایات تبدیل ہوتے رہے مگر خاتم النبیین کی بعثت کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کیلئے صرف ایک دین برحق اور دین محمدیؐ کی پیروی لازمی قرار دی گئی ماسویٰ سے تعلق و رشتہ ناقابل قبول اور مردود ٹھہرا۔اسی سبب سے آپؐ نے قرآن و سنت کی روشنی میں زندگی کے شب و روز، خوشی و غمی، عبادت و معاملات اور عقائد، انفرادی و اجتماعی، نجی و سماجی ،عائلی و خانگی ،سیاسی و قانونی ہر سطح کے زندگی کے امور کو آپؐ نے واضح انداز میں بیان کردیااور رہنمائی و رہبری کا کماحقہ فریضہ اداکردیا جس کی گواہی خود صحابہ کرامؓ نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر دی اور پھر سید المرسلینؐ نے بھی اﷲ تعالیٰ سے دعاالحاح کے ذریعہ اس کو موثق کردیا کہ میں نے ابلاغ دعوت میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کی اور نہ ہی کوئی کمی بیشی کی ۔یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ خود قرآن مجید میں اس بات کو کھلے انداز میں بیان فرمادیاکہ’’آج کے دن ہم نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر اسلام کو بطور دین مقرر کرکے پوری کردی‘‘۔
یہی وجہ ہے کہ بعثت کے تئیس سال بعد آپؐ دنیا سے پردہ فرماکرجوار رحمت میں منتقل ہوگئے۔تاہم یوم حساب تک کی بقیہ زندگی میں مسلمانوں کو انبیاء کا وہ بنیادی دعوتی فریضہ کا منصب عنایت کیا گیا ۔جسے خود قرآن حکیم میں بیان ہواہے کہ’’تم خیر امت بناکر بھیجے گئے ہو جو لوگوں کو نیکی و بھلائی کا حکم دیتے ہوئے اور بدی سے منع کرتے ہو‘‘۔اﷲ تعالیٰ کی طرف سے امت محمدیہ کو یہ منصب عطا ہونا معمولی بات نہیں بلکہ یہ بڑے اعزاز و فخر کی بات ہے ۔مگر افسوس کہ ملت اسلامیہ اس فریضہ کو کماحقہ اداکرنے میں پس و پیش سے کام لیتی رہی اور اس میں تفریق و تقسیم کی کوشش کرتی رہی کہ دین کی دعوت و پیغام فقط اہل مدارس، اہل مساجد، اہل اسلام تک محدود رکھا گیا ۔اور اس کے ساتھ ہی قرآن حکیم کے اس پیغام کو اپنی آنکھوں سے اوجھل کردیا کہ ’’ہمارے رب ہمیں دنیا و آخرت کی بھلائی و خیر عطافرما‘‘صرف چادر و چاردیواری میں مسدود ہوکر نماز، روزہ، حج،زکوٰۃ و عبادت و عقائد کی تصحیح تک محدودہوگئے جبکہ اﷲ تعالیٰ نے تو رسول اکرمؐ کو فرمایا تھا کہ’’ ہم نے آپ کو بھیجا ہدایت دیکر اور دین حق کے ساتھ تاکہ یہ غالب و نافذ ہوجائے تمام ادیان و ملل پر‘‘۔باوجود اس بات کے جاننے کے کہ دنیا کی قیادت و سیادت حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ علوم نقلیہ(کتاب و سنت )کے ساتھ علوم عقلیہ(سائنس، ریاضی، ٹیکنالوجی)وغیرہ کا حصول بھی لازمی وضروری ہے اور طرہ امتیاز تو یہ ہے کہ اسلام میں کہیں دینی و دنیاوی تعلیم کی تفریق و تقسیم کی بات کی ہی نہیں گئی تونامعلوم کم فہم و نادان مسلمانوں نے اضطراری حالت میں اختیار کیئے جانے والے منہج و طریقہ کو ہمیشہ کیلئے فرض ٹھہراکر عصری علوم سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔
دین و دنیا میں تفریق کرنے کے نتیجہ میں مسلمانوں کو اقبال مندی سے ذلت و رسوائی اور کاسہ لیسی کی زندگی کی طرف مجبوراً منتقل ہونا پڑا۔حالانکہ اﷲ تعالیٰ نے خود قرآن میں حصول اقتدار و استخلاف ارضی کے جابجا وعدے فرمائے کہانسان کی بعثت ہی بطور خلیفۃ اﷲ کے کی گئی اور اس کے ساتھ ہی سچے و پکے اور گھرے مسلمانوں سے یہ وعدہ بھی قرآن مجید نے کیا کہ ’’اﷲ تعالیٰ وعدہ کرتاہے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائے اور عمل صالح کو اختیار کرتے ہیں کہ ان کو زمین پر خلافت (حکومت)عنایت کرے گا جیسے ان سے پہلوؤں کو عطاکی‘‘اسی سبب حضور اکرمؐ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کرکے اسلامی ریاست کی طرح ڈالی اور بعد میں خلفاء الراشدین، خلفاء بنوامیہ، خلفاء بنوعباس، خلفاء عثمانیہ اور مغلوں نے اسلامی نظام حکومت کو چھ سوسال تک قائم رکھا اور مسلمانوں کے ایام اقتدار میں دنیا بھر میں فرحت و شادمانی کا دور دورہ تھا اور زندگی کے کسی بھی مرحلہ میں کمزور و غریب اور ذمی کے حقوق کو پامال نہیں کیا گیا یہاں تک کہ غیرمسلم خصوصاً یورپ کے باشندے پانچویں صدی سے دسویں صدی عیسویں میں مارے ظلمت و تاریکی کے روشنی حاصل کرنے کیلئے اندلس میں آکر تعلیم و تربیت حاصل کرتے تھے کہ مسلمانوں نے کسی بھی طرح بخل و کنجوسی سے کام نہ لیا بلکہ علمی امانت کو انسانیت کی نفع مندی کی خاطر منتقل کرتے رہے۔ تاہم مغربی اقوام نے احسان فراموشی کو اختیار کرتے ہوئے مسلمانوں سے حاصل شدہ علوم وفنون کے نام بدل کرانہیں اپنی طرف منسوب کرلیا۔اور اس کے ساتھ ظلم کی انتہاء یہاں تک کردی کہ وہ علوم و فنون جن کو مسلمان انسانیت کی خیر و بھلائی کیلئے استعمال کرتے تھے میں تطور پیدا کرکے ایسے آلات تیار کیے کہ جن کے ذریعہ خود انسانیت کے قتل عام کا بدترین نظام قائم کردیا کہ ایٹمی اسلحہ، سامان حرب و ضرب کی تیاری کے بعد اس کی خرید و فروخت اور اس کے استعمال کیلئے دوسری ریاستوں کیخلاف استعمال کرنے میں پس و پیش سے کام نہیں لیا گیا بلکہ اس کا ہوشربا استعمال کرکے ہیروشیما اور ناگاساکی کے بعد عراق و افغانستان، برما، فلسطین، اور کشمیر و شام میں اس کا بدترین استعمال باعث افسوس ناک ہے۔اسی پر بس نہیں ہے کہ امریکہ بہادر نے ظلم و جور کی تاریخ کو دہراتے ہوئے مسلمانوں کے قبلہ اول کو یہود کے زیر نگین دینے کا فیصلہ ہی نہیں کیا بلکہ اس کے ساتھ اس نے مسلم ممالک کے خلاف اپنے زہر و عداوت کو مزید اجاگر کرتے ہوئے پاکستان و سعودی عرب اور ایران ودیگر مسلم ممالک کو خطرناک ممالک کی فہرست میں شمار کرلیا ہے اور مسلم ممالک پر اپنی من چاہی مرضی مسلط کرنے کیلئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کررہاہے ڈولڈٹرمپ پانچ سو ارب ڈالر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات و خلیجی ممالک سے خراج بھی وصول کرچکاہے اور اسی پر بس نہیں لاکھوں مسلمانوں کی جان و مال اور عزت کی پامالی ہر آن و ہر گھڑی ضروری سمجھتا ہے۔تاکہ مسلم ممالک کے مال و دولت اور قوت ایزدی سے اپنے ظالمانہ و جابرانہ اور طاغوتی نظام کو دوام و بقادے سکے ۔
لیکن ہمیں اغیار سے کیا شکوہ کرنا ہے ان سے تو خیر و بھلائی اور صلاح کی توقع رکھنا ہی عبث ہے ،دل و جگر خون کے آنسو تو خود اپنے مسلمانوں کی حالت زار پر بہاتاہے کہ ہم نے اپنے فرض منصبی کو فرموش کردیا اور اغیار کی غلامی و نقالی میں آنکھیں بند کرکے ان کی چلائی گئی ہر انسانیت دشمن ہوا و فضا کو لبیک کہہ کر باہم دست و گریبان ہوتے رہے ہیں ۔کہ دشمنان اسلام ’’کفر ایک ملت ہے‘‘کی عملی مثال بن چکے ہیں کہ روس، امریکہ، بھارت،اسرائیل سمیت تمام کفریہ طاقتیں باہم متحد و متفق ہوکر مسلم ممالک و قوم پر یلغار کرچکے ہیں۔اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ وہ اپنی تباہی و بربادی کی طرف پیش قدمی کررہے ہیں کہ ان کا دور اقتدار ختم و انتہا کو پہنچنے والا ہے تاہم مسلمانوں پر بھی تو ضروری ہے کہ وہ فروعی و نزعی اختلافات خواہ وہ سیاسی ہوں یا مذہبی، علاقائی ہوں یا نسلی ان تمام سے بالاتر ہوکر امت واحدہ بن کر اسلام کی نشاۃ ثانیہ کیلئے تیارہوجائیں اور کیونکہیوم حشر اس وقت تک بپا ہوگا ہی نہیں کہ مسلمانوں کو حضور اقدسؐ کے فرمان عالی شان کے مطابق دوبارہ اقتدار بطریق خلافت میسر نہ آجائے۔ البتہ اس کیلئے ضروری ہے کہ موجودہ حالات میں عالم کفر کی تمام سازشوں اور کوششوں کو باریک بینی سے ناصرف جائزہ لینے کی ضرورت ہے بلکہ اس کے جواب میں بیک زبان و یک جان بن کر سینہ سپر ہونے کی بھی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ اﷲ کی سنت ہے کہ دین متین کی نصرت کرنے کی صورت میں ہی انسانیت کی مدد کی جائے گی ۔ملت اسلامیہ کے نوجوانوں اور اہل فکر و دانش پر لازمی ہے کہ اسلامی بیداری کی تحریک کو زندہ کریں اور دینی و دنیاوی علوم و فنون کی تحصیل میں پس و پیش سے کام لینے کی بجائے اس میں قائدانہ صلاحیتیں پیدا کرنے کی کوشش کریں۔اور یہ امر اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم دین الٰہی کے ساتھ والہانہ انداز میں محبت ہی نہ کریں بلکہ اس پر عمل کرنے کیلئے انتھک جدوجہد بھی کریں۔ہمیں اﷲ تعالیٰ کی ذات عالی پر بھروسہ کرتے ہوئے کفر کے سامنے سینہ سپر ہوجانا چاہئے قرآن و سنت اور سیرت صحابہ وتابعین و اسلاف پر عمل کرکے ہمیشہ کی کامیابی ہمیں ہی نصیب ہوجائے گی۔بس ضرورت ہے کہ ذمہ داری کااحساس کرتے ہوئے میدان عمل میں اتریں۔فوزوفلاح اور نصرت کا وعدہ الٰہی ضرورپورا ہوگا۔ان شاء اﷲ
دین و دنیا میں تفریق کرنے کے نتیجہ میں مسلمانوں کو اقبال مندی سے ذلت و رسوائی اور کاسہ لیسی کی زندگی کی طرف مجبوراً منتقل ہونا پڑا۔حالانکہ اﷲ تعالیٰ نے خود قرآن میں حصول اقتدار و استخلاف ارضی کے جابجا وعدے فرمائے کہانسان کی بعثت ہی بطور خلیفۃ اﷲ کے کی گئی اور اس کے ساتھ ہی سچے و پکے اور گھرے مسلمانوں سے یہ وعدہ بھی قرآن مجید نے کیا کہ ’’اﷲ تعالیٰ وعدہ کرتاہے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائے اور عمل صالح کو اختیار کرتے ہیں کہ ان کو زمین پر خلافت (حکومت)عنایت کرے گا جیسے ان سے پہلوؤں کو عطاکی‘‘اسی سبب حضور اکرمؐ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کرکے اسلامی ریاست کی طرح ڈالی اور بعد میں خلفاء الراشدین، خلفاء بنوامیہ، خلفاء بنوعباس، خلفاء عثمانیہ اور مغلوں نے اسلامی نظام حکومت کو چھ سوسال تک قائم رکھا اور مسلمانوں کے ایام اقتدار میں دنیا بھر میں فرحت و شادمانی کا دور دورہ تھا اور زندگی کے کسی بھی مرحلہ میں کمزور و غریب اور ذمی کے حقوق کو پامال نہیں کیا گیا یہاں تک کہ غیرمسلم خصوصاً یورپ کے باشندے پانچویں صدی سے دسویں صدی عیسویں میں مارے ظلمت و تاریکی کے روشنی حاصل کرنے کیلئے اندلس میں آکر تعلیم و تربیت حاصل کرتے تھے کہ مسلمانوں نے کسی بھی طرح بخل و کنجوسی سے کام نہ لیا بلکہ علمی امانت کو انسانیت کی نفع مندی کی خاطر منتقل کرتے رہے۔ تاہم مغربی اقوام نے احسان فراموشی کو اختیار کرتے ہوئے مسلمانوں سے حاصل شدہ علوم وفنون کے نام بدل کرانہیں اپنی طرف منسوب کرلیا۔اور اس کے ساتھ ظلم کی انتہاء یہاں تک کردی کہ وہ علوم و فنون جن کو مسلمان انسانیت کی خیر و بھلائی کیلئے استعمال کرتے تھے میں تطور پیدا کرکے ایسے آلات تیار کیے کہ جن کے ذریعہ خود انسانیت کے قتل عام کا بدترین نظام قائم کردیا کہ ایٹمی اسلحہ، سامان حرب و ضرب کی تیاری کے بعد اس کی خرید و فروخت اور اس کے استعمال کیلئے دوسری ریاستوں کیخلاف استعمال کرنے میں پس و پیش سے کام نہیں لیا گیا بلکہ اس کا ہوشربا استعمال کرکے ہیروشیما اور ناگاساکی کے بعد عراق و افغانستان، برما، فلسطین، اور کشمیر و شام میں اس کا بدترین استعمال باعث افسوس ناک ہے۔اسی پر بس نہیں ہے کہ امریکہ بہادر نے ظلم و جور کی تاریخ کو دہراتے ہوئے مسلمانوں کے قبلہ اول کو یہود کے زیر نگین دینے کا فیصلہ ہی نہیں کیا بلکہ اس کے ساتھ اس نے مسلم ممالک کے خلاف اپنے زہر و عداوت کو مزید اجاگر کرتے ہوئے پاکستان و سعودی عرب اور ایران ودیگر مسلم ممالک کو خطرناک ممالک کی فہرست میں شمار کرلیا ہے اور مسلم ممالک پر اپنی من چاہی مرضی مسلط کرنے کیلئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کررہاہے ڈولڈٹرمپ پانچ سو ارب ڈالر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات و خلیجی ممالک سے خراج بھی وصول کرچکاہے اور اسی پر بس نہیں لاکھوں مسلمانوں کی جان و مال اور عزت کی پامالی ہر آن و ہر گھڑی ضروری سمجھتا ہے۔تاکہ مسلم ممالک کے مال و دولت اور قوت ایزدی سے اپنے ظالمانہ و جابرانہ اور طاغوتی نظام کو دوام و بقادے سکے ۔
لیکن ہمیں اغیار سے کیا شکوہ کرنا ہے ان سے تو خیر و بھلائی اور صلاح کی توقع رکھنا ہی عبث ہے ،دل و جگر خون کے آنسو تو خود اپنے مسلمانوں کی حالت زار پر بہاتاہے کہ ہم نے اپنے فرض منصبی کو فرموش کردیا اور اغیار کی غلامی و نقالی میں آنکھیں بند کرکے ان کی چلائی گئی ہر انسانیت دشمن ہوا و فضا کو لبیک کہہ کر باہم دست و گریبان ہوتے رہے ہیں ۔کہ دشمنان اسلام ’’کفر ایک ملت ہے‘‘کی عملی مثال بن چکے ہیں کہ روس، امریکہ، بھارت،اسرائیل سمیت تمام کفریہ طاقتیں باہم متحد و متفق ہوکر مسلم ممالک و قوم پر یلغار کرچکے ہیں۔اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ وہ اپنی تباہی و بربادی کی طرف پیش قدمی کررہے ہیں کہ ان کا دور اقتدار ختم و انتہا کو پہنچنے والا ہے تاہم مسلمانوں پر بھی تو ضروری ہے کہ وہ فروعی و نزعی اختلافات خواہ وہ سیاسی ہوں یا مذہبی، علاقائی ہوں یا نسلی ان تمام سے بالاتر ہوکر امت واحدہ بن کر اسلام کی نشاۃ ثانیہ کیلئے تیارہوجائیں اور کیونکہیوم حشر اس وقت تک بپا ہوگا ہی نہیں کہ مسلمانوں کو حضور اقدسؐ کے فرمان عالی شان کے مطابق دوبارہ اقتدار بطریق خلافت میسر نہ آجائے۔ البتہ اس کیلئے ضروری ہے کہ موجودہ حالات میں عالم کفر کی تمام سازشوں اور کوششوں کو باریک بینی سے ناصرف جائزہ لینے کی ضرورت ہے بلکہ اس کے جواب میں بیک زبان و یک جان بن کر سینہ سپر ہونے کی بھی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ اﷲ کی سنت ہے کہ دین متین کی نصرت کرنے کی صورت میں ہی انسانیت کی مدد کی جائے گی ۔ملت اسلامیہ کے نوجوانوں اور اہل فکر و دانش پر لازمی ہے کہ اسلامی بیداری کی تحریک کو زندہ کریں اور دینی و دنیاوی علوم و فنون کی تحصیل میں پس و پیش سے کام لینے کی بجائے اس میں قائدانہ صلاحیتیں پیدا کرنے کی کوشش کریں۔اور یہ امر اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم دین الٰہی کے ساتھ والہانہ انداز میں محبت ہی نہ کریں بلکہ اس پر عمل کرنے کیلئے انتھک جدوجہد بھی کریں۔ہمیں اﷲ تعالیٰ کی ذات عالی پر بھروسہ کرتے ہوئے کفر کے سامنے سینہ سپر ہوجانا چاہئے قرآن و سنت اور سیرت صحابہ وتابعین و اسلاف پر عمل کرکے ہمیشہ کی کامیابی ہمیں ہی نصیب ہوجائے گی۔بس ضرورت ہے کہ ذمہ داری کااحساس کرتے ہوئے میدان عمل میں اتریں۔فوزوفلاح اور نصرت کا وعدہ الٰہی ضرورپورا ہوگا۔ان شاء اﷲ