از:حافظ احمد علی بیگ نوری شعبہ نشر و اشاعت امام احمد رضا مومنٹ، بنگلور
سب سے پہلے قرآن کا فرمان ملاحظہ فرمائیں : اے میرے محبوب آپ فرما دیں ، اے لوگو! تمہارے باپ، تمہارے بیٹے ،تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں ، تمہارے کنبہ، تمہاری کمائی کے وہ مال جس کے نقصان کا تمہیں ڈر رہتا ہے اور تمہاری پسند کے مکانات ان میں سے کوئی بھی چیز تمہیں اﷲ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پیاری ہو تو انتظار کرو کہ اﷲ تعالیٰ اپنا عذاب اتارے اور اﷲ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔ (سورہ توبہ ،ع ۹)
اسلام میں ایک بھی قانون ایسا نہیں جسے عقل تسلیم کرنے سے انکار کر سکے، اﷲ تعالیٰ یہ نہیں فرمایا کہ تم اپنے والدین سے محبت کرنا چھوڑ دو اور یہ بھی نہیں فرمایا کہ تم اپنے بہن بھائیوں سے ، اپنے رشتہ داروں دوستوں احباب سے محبت کرنا چھوڑ دو، تم اپنے مال و دولت اور مکانات سے محبت کرنا چھوڑ دو ، بلکہ فرمایا کہ جن سب چیزوں سے تمہیں محبت ہے ، ان سے محبت رکھو ، مگر اس محبت کواس قدر نہ بڑھاؤ کہ یہ اﷲ اور اس کے رسولﷺ کی محبت کو اس پر غالب آجائے۔
حدیث رسول بھی سماعت فرما لیں : حضور رحمۃ اللعٰلمین ﷺنے فرمایا ! تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک ایمان والا ہو ہی نہیں سکتا، جب تک اس کے دل میں میری محبت اس کے والدین اس کی اولاد حتیٰ کے تمام کائنات سے زیادہ نہ ہو۔قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ اے محبوب! فرما دیجئے، اے لوگو! اگر تم اﷲ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو ، اﷲ بھی تم سے محبت کرے گا ۔ (پ ۳ ع ۱۲) حضرت حسن بصری رحمۃ اﷲ علیہ کا قول ہے کہ کچھ لوگوں نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ ہم رب تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں تب یہ آیت نازل ہوئی یعنی اطاعت رسول ﷺ محبت الٰہی کا موجب ہے۔یہی نہیں بلکہ خداوند قدوس اپنے محبوب ﷺ سے اپنی محبت کو ’’من توشدم تومن شدی‘‘ کی مثال بنا کر یوں پیش فرماتاہے کہ محبوب جس نے تمہاری بیعت کی، اس نے میری بیعت کی اور لوگوں سے فرمایا جس نے میرے محبوب کے احکام کی تعمیل کی، حقیقت میں اس نے میرے ہی حکم کو مانا ۔پتہ چلا کہ حضور سرکار کائنات ﷺ کی محبت پر ہی مومن ہونے کا دارومدار ہے، مگر محبت میں زبر دستی نہیں ہو سکتی، اس لئے محبت کی نہیں جاتی محبت ہو جاتی ہے، لیکن خدائے تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میرے محبوب سے محبت کرو۔
اﷲ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے اچھی طرح سمجھ لو کہ بندے کے لئے اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت ان کی اطاعت اور ان کے احکامات کی پیروی ہے اور اﷲ تعالیٰ کے لئے بندوں کی محبت رحمت اور بخشش کا نزول ہے جب بندہ یہ بات سمجھ لیتا ہے کہ کمالات حقیقی صرف اﷲ ہی کے لئے ہیں اور مخلوق کے کمالات بھی حقیقت میں اﷲ ہی کے کمالات ہیں اور اﷲ ہی کے عطا کر دہ ہیں تو اس کی محبت اﷲ کے ساتھ اور اﷲ کے لئے ہو جاتی ہے ،یہی چیز اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ بندہ اﷲ کی اطاعت کرے اور جن باتوں کا وہ اقرار کرتا ہے ان امور سے اس محبت میں اضافہ ہو اسی لئے محبت کو اطاعت کے ارادوں کا نام دیا گیا ہے اور اس کو اخلاص عبادت اور رسول ﷺ کی اتباع کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے۔
ہم نبیﷺ سے محبت کیوں نہ کریں:جو نبی اپنی گناہگار امت کیلئے دن رات آنسؤں کے دریا بہا دئے ہیں تاریخ گواہ ہے کہ نبی کریم ﷺ ماں کے شکم سے دنیا میں تشریف لاتے ہی اپنی گناہ گار امت کو یاد فرمایا۔
مدارج البنوہ میں ہے کہ آپ کی قبر مبارک سے جو آخر میں جوکلمات نکلے وہ قثم بن عباس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کے چہرۂ انور کی جب آخری زیارت ہم نے کی تو دیکھا کہ حضور ﷺ کے لبہائے مبارک ہل رہے تھے، ہم نے اپنا کان قریب کر دیا تو آپ ﷺ رب امتی رب امتی فرما رہے ہیں۔ قربان جائے: اپنے مہر بان آقا و مولیٰ ﷺ پر کہ وہ ہمیشہ ہم گنہگاروں کی فکر میں رہے۔ یہاں تک کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ امت کے گناہوں کے غم سے حضور کبھی پوری رات ایک بستر پر آرام سے نہیں سوئے۔غر ضکہ ہمیشہ امت کی فکر میں رہے کبھی ہم کو فراموش نہیں کیا۔ماں کے شکم سے اس دنیا میں تشریف لاتے ہی یاد فرمایا۔ اپنے حجرہ میں رہے تو وہاں یاد فرمایا، مسجد میں رہے تو وہاں یاد فرمایا۔معراج کی رات میں عرش پر،جنگل و بیابان میں یاد فرمایا،پہاڑ کی گھاٹیوں میں یاد فرمایا، یہاں تک کہ قبر انور میں لٹائے گئے تو وہاں بھی یاد فرمایا۔
محبت کی تعریف:امام غزالی رحمۃ اﷲ علیہ اپنی کتاب مکاشفۃ القلوب میں تحریر فرماتے ہیں کہ’’ محبت‘‘ نام ہے پسندیدہ چیز کی طرف میلان طبع کا اگر یہ میلان شدت اختیار کر جائے تو اسے عشق کہتے ہیں۔اس میں زیادتی ہوتی رہتی ہے۔یہاں تک کہ عاشق محبوب کا بندۂ بے دام بن جاتا ہے اور مال و دولت اس پر قربان کر دیتا ہے، مثال حضرۃ زلیخہ کولے لیجئے جس نے حضرت یوسف علیہ السلام کی محبت میں اپنا حسن اور مال و دولت قربان کر دیا، زلیخا کے پاس ستر اونٹوں کے بوجھ کے برابر جواہر اور موتی تھے جو عشق یوسف میں نثارکر دئے، جب بھی کوئی یہ کہہ دیتا کہ میں نے یوسف کو دیکھا ہے تو وہ اسے بیش قیمت ہار دے دیتی یہاں تک کہ کچھ بھی باقی نہ رہا ، اس نے ہر چیز کا نام یوسف رکھ چھوڑا تھا اور فرط محبت میں حضرت یوسف علیہ السلام کے سوا سب کچھ بھول گئی تھی، جب زلیخہ ایمان لائی اور حضرت یوسف علیہ السلام کی زوجیت میں داخل ہوئی تو سوائے عبادت و ریاضت کے کوئی کام نہ تھا۔جب حضرت یوسف علیہ السلام زلیخا کو رات میں اپنے پاس بلاتے تو کہتی دن کو اور جب دن میں بلاتے تو کہتی رات کو ۔آپ علیہ السلام نے فرمایا اے زلیخا! تو تو میری محبت میں دیوانی تھی، جواب دیا یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب میں آپ کی محبت کی ماہیت سے واقف نہ تھی، اب میں آپ کی محبت کی حقیقت کو پہچان چکی ہوں۔اب میری محبت میں تمہاری شرکت گوارا نہیں ۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا مجھے اﷲ نے اس بات کا حکم فرمایا ہے اور مجھے بتلایا ہے کہ تیرے بطن سے اﷲ تعالیٰ دو بیٹے پیدا کرے گا اور دونوں کو نبوت سے سرفراز فرمائے گا ، زلیخا نے کہا اگر یہ حکم خداوندی ہے اور اس میں حکمت الٰہی ہے تو میں سرِ تسلیم خم کرتی ہوں۔
حضرت آسیہ رضی اﷲ عنہا نے اپنا ایمان اپنے شوہر فرعون سے چھپا رکھی تھی، جب فرعون کو اس کا پتہ چلا تو اس نے حکم دیا کہ اسے گو نا گوں عذاب دئے جائیں تا کہ حضرت آسیہ ایمان کو چھوڑ دیں لیکن آسیہ ثابت قدم رہیں، حضرت سلمان رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ آسیہ کو دھوپ میں عذاب دیا جاتا تھاجب لوگ لوٹ جاتے تو فرشتے اپنے پروں سے آپ پر سایہ کیا کرتے تھے اور وہ اپنے جنت والے گھر دیکھتی رہتی تھیں۔ تب فرعون نے میخیں منگوائیں اور ان کے جسم پر میخیں گڑوا دیں اور فرعون کہنے لگا اب وقت ہے ایمان کو چھوڑ دو مگر حضرت آسیہ نے جواب دیا تو میرے وجود پر قادر ہے لیکن میرا دل میرے رب کی پناہ میں ہے، اگر تو میرا ہر عضو کاٹ دے تب بھی میرا عشق بڑھتا جائے گا۔موسیٰ علیہ السلام کا اچانک اس راہ سے گزر ہوا آسیہ نے آپ سے پوچھا میرا رب مجھ سے راضی ہے یا نہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا:اے آسیہ! آسمان کے فرشتے تیرے انتظار میں ہیں ؛پھر آپ نے دعا کی اﷲ تعالیٰ نے آسیہ کو فرعون سے با عزت رہائی عطا فرمائی اور ان کو جنت میں بلا لیا جہاں وہ ذی حیات کی طرح کھا تی پیتی ہیں۔
نبی ﷺ سے محبت :حضرت مصعب رضی اﷲ عنہ شکل و شباہت میں رسول اکرم ﷺ سے بہت ملتے جلتے تھے۔ اس لئے مشرکین نے یہ افواہ اپھیلا دی کہ تو بہ نعوذ باﷲ محمد ﷺ قتل (شہید)کر دئے گئے ہیں ۔ اس خبر سے کئی مسلمانوں کے حوصلے پست ہوگئے۔ام عمارہ! جن کے خاوند اور دو بیٹے بھی رسول اکرم ﷺ کی حفاظت کے طور نہایت جانبازی سے لڑ رہے تھے۔ ام عمارہ اپنی ننگی تلوار لئے دشمنوں پر وار کر تی ہوئی اپنی محبت کا اظہار کر رہی تھیں۔کہ شوہر کو شہید ہونا اور اپنے بیٹے کی قربانی کو گوارہ کر سکتی ہوں مگر رسول اکرم ﷺ پر ذرہ برابر خروش آنا بھی برداشت نہیں کر سکتیں۔رسول اکرم ﷺ نے اس پورے کنبے کی بہادری اور قربانی سے بہت متأثر ہوکر فرمایا ۔ یا اﷲ! اس پورے کنبے پر رحم فرمایا اور اس کنبے کو جنت میں میرا ساتھی بنادے۔
حضرت معاذ و معوذ نے جب سنا کہ ابو جہل نبی کریم ﷺ کی گستاخی و بے حرمتی کر رہا ہے اور نبی کریم ﷺ کو گالیاں دیتا آ رہا ہے تو عفرا کے دو ننھے معصوم اپنی جان کی بازی لگا دی اور میدان میں اس گستاخِ رسول کو قتل کرنے کے ارادے سے میدان میں کود پڑے،اور اس ارادے میں کامیابی بھی حاصل کر لیا ۔اے !معاذ اور معوذ(رضی اﷲ عنہم) تیری ہمت پر قربان کہ ایسا ظالم ابو جہل جس کی حفاظت ان کے محافظ چاروں طرف سے کر رہے ہیں مگر ! تم نے اس کی پرواہ نہ کی اور عشق رسول میں اپنی جان کونبی کے نام پر قربان کر کے امت محمد یہ کو درس دیااور اعلان کر دیا کہ اے امتِ محمد ی جب دشمنانِ رسول سامنے آجائے ،اپنی ہر چیز قربان کر دینامگر اپنے سامنے نبی کی شان میں گستاخی کرنے والوں کی گستاخی کو گوارہ نہ کر نا۔
حضرت بلال رضی اﷲ عنہ کو دیکھئے کہ آپ امیہ بن خلف کے غلام تھے اس نے سنا کہ حضرت بلال کے دل میں محبت رسول جلوہ گر ہے اور اس نے اسلام قبول کر لیا ہے، امیہ نے آپ کو طرح طرح کی تکلیفیں دیں۔آگ کی طرح جلتی ہوئی ریت پر لٹا یا، سخت ترین دھوپ میں بٹھایا ،گرم گرم پتھروں کو سینۂ بلال پر رکھوایا، مگر یہ سب ظلم برداشت کرنے کے با وجود آپ نے بزبان حال پر یہ فرمایاـ حلق پہ تیغ رہے، سینہ پہ جلاد رہے لب پہ تیرا نام رہے دل میں تیری یاد رہے (دل بلال کا آباد رہے)
سبق: اگر ہمارے دل محبت رسول ﷺ سے سرشار ہوں گے تو محبوب پا ک کی ہر ادا پسند آئے گی، پھر اسی محبت کی بدولت سرکارِ دوعالم ﷺ کی اطاعت و فرماں برداری کا جذبہ پیدا ہو جائیگا ۔ اﷲ تعالیٰ ہم تمام مسلمان بھائی اور بہنوں کو اپنی محبت اور اپنے رسول ﷺ کی سچی محبت عطا فرمائے۔
|